پاکستانی معاشرے کا تصور

پاکستان جو آج چار صوبوں پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، خیبر پختون خواہ اور شمالی علاقہ جات ، ریاست جموں و کشمیر کے علاقوں پر مشتمل ہے اور جس کا کل رقبہ ۳۰۷۳۷۴میل ہے ۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ئ میں معرض وجود میں آیا ۔
پاکستانی معاشرہ اپنی تاریخ اور اپنی مخصوص تہزیب وثقافت رکھتا ہے ۔
ہر چند قیام پاکستان کے بعد پاکستانی معاشرے میں سیاسی ، معاشرتی اور معاشی
تبدیلیاں آئی ہیں مگر اس میں تاریخ اور تہزیبی طور پر ایک تسلسل آرہا ہے ۔
پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر زرعی معاشرہ ہے ۔ زراعت سے متعلق دوسرے
حرفتی پیشے مثلّا لوہا ، ترکھان ، کمہار وغیرہ ہیں ۔ نئی معاشی و معاشرتی تبدیلیوں کے بعث دیہاتی لوگ اب اپنے پیشے بدل رہے ہیں جو ایک بہت بڑی معاشرتی تبدیلی ہے ۔

  پاکستان کا معاشرہ طبقاتی معاشرہ ہے ۔ اس میں خاصی اونچ نیچ پائی جاتی ہے ۔
یہاں واضح طور پر اعلیٰ ، متوسط اور ادنیٰ طبقہ موجود ہے ۔ ملک کی بیشتر آبادی ادنیٰ طبقہ میں پائی آتی ہے ۔  متوسط طبقہ پھیل رہا ہے ۔ اعلیٰ طبقہ امیر سے امیر تر بلکہ امیر ترین ہو گیا ہے ، جبکہ غریب طبقہ پس کر رہ گیا ہے ۔
بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔


  ہمارے معاشرے میں مختلف معاشرتی اور اقتصادی گروہ ہیں صنعتی ، کاروباری ، جاگیردار اور بیوروکریسی بہت طاقتور گروہ ہیں اور حکومتی پالیسیوں پر بہت اثر انداز ہوتے ہیں اور دن بدن ان کی قوت میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہو رہا ہے ۔ مزدوروں کا گروہ بھی اپنے آپ کو منظم کر رہا ہے اور اس کی قوت میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہو رہا ہے ، مگر جہاں تک کاشتکاروں کا تعلق ہے وہ ابھی تک غیر منظم اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں کمزور تریں واقع ہوئے ہیں ۔ ان کی تنظیمی صورت حال انتہائی ختسہ ہے ، دیہاتوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کا فقدان ہے اور جو پڑھ لکھ جاتے ہیں وہ شہروں کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں ۔

  بے روزگاری کے سبب دیہاتی آبادی شہروں اور قصبوں کی طرف منتقل ہو رہی ہے جس کی وجہ سے شہری آبادی پر دباوٗ بڑھ رہا ہے ، مگر یہ صورت حال ہماری غلط منصوبہ بندیوں کا منطقی نتیجہ ہے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ صنعت اور کاروباری پیشوں کے مراکز یا فیکٹریاں ، صنعتیں شہروں میں مرکوز کر دی گئی ہیں اور دیہاتوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ کم از کم اگر زراعت پر مبنی صنعتوں کو دیہی علاقوں ہی میں لگایا جاتا اور دیہات کو ملکی ترقیاتی منصوبوں میں اس کا جائز حصہ دیا جاتا تو آج یہ بحرانی صورت حال پیدا نہ ہوتی ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں