پیر، 30 مارچ، 2015

قائداعظم کا تصور تعلیم

قیام  پاکستان کے وقت ہمیں ورثے میں فرسودہ برتانوی نظام تعلیم ملا جو ہماری قومی روایات کے منافی تھا ۔ اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ ایسا نظام تعلیم بنایا جائے جو ہمارے فلسفہ حیات سے مربوط ہو ۔ بانی پاکستان قائداعظم نے صحیح تعلیم تربیت کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے زور دیا کے ایسا نظام تعلیم تشکیل دیا جائے جو ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہو ۔ چنانچہ آپ نے پہلی تعلیمی کانفرنس کے موقع پر اپنے پیغام میں فرمایا ۔

        ہمیں اپنی تعلیمی پالیسی اور منصوبے کو عوام کے تقاضوں اور تمدن  و تاریخ کی روشنی میں تمام جدید تبدیلیوں کو پیش نظر رکھ کر مرتب کرنا ہو گا ۔ ہمارے ملک کا مستقبل اس تعلیم و تربیت پر منحصر ہو گا جو ہم اپنے بچوں کو سچا پاکستانی بنانے کے لئیے دیں گے ۔ تعلیم کا مقصد صرف کتابی تعلیم نہیں بلکہ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہمارے عوام ٹیکنیکل اور سائنسی تعلیم سے بھی مستفید ہوں تا کہ مستقبل میں ہماری اقتصادی زندگی بہتر کی جا سکے اور لوگ سائنس ، تجارت اور خاص طور پر منظم کی ہوئی صنعتوں میں حصہ لے سکیں ۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کے ہمیں دنیا سے مقابلہ کرنا ہے جو بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اس کے ساتھ ہمیں اپنی آئندہ نسل کی کردار سازی بھی کرنی چاہیے ۔ ہمیں چاہیے کہ موزوں تعلیم کے ذریعےان میں عزت نفس ، راست بازی ، ذمہ داری اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدہ کریں اور قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمت و کردار ادا کرنے کے لیے اچھی مہارت اور تربیت ہو تا کہ پاکستان کو عظمت و کامیابی حاصل ہو ۔