ہفتہ، 18 اپریل، 2015

گردوں کی بیماری اور ان سے بچنے کا حل

تحریر: ڈاکٹر صابر ایاز ملک 


موجودہ دور جدید میں گردوں کی بیماریاں خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہیں ۔ یہ بیماریاں ہر عمر اور نسل کو ہو سکتی ہیں ۔ اس مرض کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ اس بیماری سے آگاہی حاصل کی جائے اور سرکاری یا غیر سرکاری ہسپتالوں میں اپنے مکمل ٹیسٹ کروائے جائیں تاکہ اس بیماری سے محفوظ رہ سکیں ۔ ہر سال مارچ کے وسط میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر گردوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ، ایسے غیر سرکاری ہسپتال بھی ہیں جو گردوں کے عالمی دن کے موقع پر نہ صرف اس بیماری کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے ہیں بلکہ مفت ٹیسٹ اور ادویات بھی فراہم کرتے ہیں ۔ نرسوں کا عالمی دن ہو یا صحت کا ، ملیریا کا عالمی دن ہو یا ذیابیطس کا ، ہیپاٹایئٹس کا عالمی دن ہو یا کڈنی کا ، میڈیکل سے وابسطہ عالمی دنوں کے موقع پر فاروق ہسپتال اور اس کی انتظامیہ اس نیک کام میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ اس ہسپتال میں مستحق مریضوں کے مفت ٹیسٹ و ادویات تقسیم کی جاتی ہیں ، گزشتہ دنوں گردوں کے عالمی دن کے موقع پر کڈنی اسپیشلسٹ کی ٹیم نے اس ہسپتال کا دورہ کیا اور گردے کے مریضوں کا مکمل چیک اپ کیا ۔
اس وقت ۷۵ برس سے زائد عمر کے لوگ گردوں کی بیماری میں مبتلا ہیں جبکہ دنیا بھر میں دس فیصد لوگ گردوں کے مرض میں مبتلا میں ہیں ۔ ۶۵ سے ۷۵ سال کی عمر میں ہر چار میں سے ایک مرد اور ہر پانچ میں سے ایک عورت کو گردوں کی بیماری ہے ۔ گردوں کی اکثر بیماریوں کے آغاز میں کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی ۔ متاثرہ گردوں کی پہلی علامت اس وقت ظاہر ہوگی جب نوے فیصد سے زیادہ گردے متاثر ہو چکے ہوں گے ۔ اس لئے اس شرح کو روکنے کے لئے ہر چھ ماہ بعد گردوں کا ٹیسٹ لازمی کروانا چاہئے ۔ گردوں کی بیماری کی علامت میں پیشاب میں جھاگ پیدا ہونا ، بھوک نہ لگنا ، متلی ، قے ، کمزوری ، تھکاوٹ ، پیروں یا چہرے پر سوجن ہونا ، جسم پر خارش اور ہڈیوں میں درد وغیرہ رہنا شامل ہیں ۔ یہ اس بیماری کی ابتدائی علامتیں ہیں مگر ان پر توجہ نہیں دی جاتی جس طرح شوگر کے مریضوں کو پتہ نہیں چلتا اس طرح گردوں کے مریضوں کو بھی اس بیماری کے شروع ہونے کا پتہ نہیں چلتا اور اس مرض میں مبتلا مریض لا پرواہی سے کام لیتے ہیں ۔ تاخیر کی صورت میں ہسپتال کا رُخ کرتے ہیں جبکہ اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ایسی صورت میں ڈاکٹروں اور مریضوں دونوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ بروقت بیماری پر قابو پا لیا جائے ۔ بیماریوں سے بچنے کے لئے ابتداء میں اپنے ٹیسٹ کروانا اشد ضروری ہے ۔
گزشتہ دنوں فاروق ہسپتال اور ویسٹ وڈ برانچ کے زیراہتمام گردوں کے عالمی دن کے موقع پر فری کیمپ کا انعقاد کیا گیا جس میں نا مور ڈاکٹروں نے آگاہی لیکچر دایا ، گردوں کے مفت ٹیسٹ کئے گئے اور گردوں کے ماہر ڈاکٹروں نے مریضوں کا چیک اپ کیا ۔ ڈاکٹر محمد انس اور ڈاکٹر سلمان شفیع نے مریضوں کا مفت چیک اپ کیا اور گردون کے مرض سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر بتائیں ۔ بعد ازاں فیملی فزیشن ایسوسی ایشن فاروق ہسپتال کے زیراہتمام شہر کے فیملی فزیشنز کے لئے تربیتی لیکچر کا اہتمام بھی کیا گیا اور پروفیسر ڈاکٹر محمد انیس نے گردوں کی بیماریوں کے بچاؤ کے لئے ڈاکٹروں کو لیکچر دیا جبکہ پروفیسر ڈاکٹر سعید انور نے گردوں کو نقصان پہنچانے والی ادویات کے بارے میں لیکچر دیا ۔ اس پروگرام کے میزبان ڈاکٹر صابر ایاز ملک اور ڈاکٹر شاہد شہاب نے فیملی فزیشن کی طرف سے ہسپتال کے عملے کا شکریہ ادا کیا ۔

ںوٹ

گردوں کی اکثر بیماریوں کے آغاز میں
کوئی علامت ظاھر نہیں ہوتی
ہر چھ ماہ بعد گردوں کا ٹیسٹ لازمی کروانا چاہئے

رائٹر: فاروق انجم

جمعرات، 2 اپریل، 2015

جرائم کی روک تھام

جہالت کا خاتما :

                   جرائم کو روکنے کے لئیے سب سے اہم اور پپہلا قدم جہالت کا
خاتمہ ہے ۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم کی روشنی دی جائے تا کہ لوگوں کو اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہی ہو ۔

مزہب کی تبلیغ :

           ہر مزہب نیکی کی طرف لے جاتا ہے ۔ اسلام تو مزہب ہی ہے راہ مستقیم کار لوگوں میں رحم دلی خوف خدا ، ہمدردی اور خلوص کے جزبات پیدا کئیے جاتے ہیں ۔ قرآن مجید اور سنت رسولؐ کے متعلق بتایا جائے جب بندہ ، بندہ مومن بن جائے تو جرائم خود بخود ختم ہو جائیں گے ۔ اس کے لئیے مزہب کی اشاعت و تبلیغ بہت ضروری ہے ۔

معاشی عدل :

            حکومت وقت لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرے ۔ بے سہارا لوگوں کی مناسب مدد کرے ۔ دولت کی تقسیم کو مناسب اور متوازن کیا جائے اور معاشرے میں معاشی عدم کا قیام عمل میں لایا جائے تا کہ لوگ جرائم کی طرف راغب نہ ہوں ۔

اخلاقی اصلاح :

           لوگوں کی اصلاح کی جائے ۔ ریڈیو ، ٹیلیوژن ، لٹریچر ، فلم اور سوشل سائٹس کا استعمال اس لئیے کیا جا سکتا ہے ۔ نصاب میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کو سمویا جائے تاکہ آیندہ نسل کی اخلاقی اصلاح ہو سکے ۔ لوگوں کی اخلاقی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کیا جائے تالہ اخلاق کی کوشش سے وہ اس پر عمل پیرا ہو سکیں ۔

مجرم کی حوصلہ شکنی :

           جرم ثابت ہونے پر مجرم کو سزا ضروری دی جائے اور سزا عوام کے سامنے دی جائے اس سے لوگوں کو عبرت ہو گی اور جرم کی حوصلہ شکنی ۔ مجرم دوبارہ جرم نہیں کرے گا اور اس سے دوسے مجرموں میں جو قانوں کی ںظروں سے بچے ہیں سدھار آنے کے %70 چانسس ہو جاتے ہیں اور جو جرم کرنا چاہیں گے وہ اس سے پہلے اپنا انجام سوچ لیں گے جس سے جرائم میں بہت کمی آئے گی ۔

گھریلو ماحول :

           گھر بچوں کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے ۔ گھر کے تمام افراد پیار محبت سے رہیں ۔ بزرگوں کی اطاعت کریں ۔ چھوٹوں سے شفقت کریں اور میاں بیوی بچوں کے سامنے اپنے مسائل پر لڑائی جھگڑا نہ کریں ۔ بلکہ ان مسائل کا حل احسن طریقے سے نکا لیں ۔ گھریلو ماحول کو اچھا بنایئں تو بچے جرائم سے بچ سکتے ہیں ۔

نشہ پر پابندی :

           نشہ آور اشیاء پر پابندی لگائی جائے اور خلاف ورزی کرنے
والوں کو سزائیں سخت دی جائیں ۔

تفریحی سہولیات :

           جرائم کو ختم کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ لوگوں کو تفریح کے بہتر سے بہتر مواقع مہیا کئے جائیں تاکہ وہ اپنے فرصت کے لمحات کو بری جگہ یا بری صحبت سے نہ گزاریں ۔

جاری۔۔۔۔

معاشرتی مسائل کا حل

ہر معاشرہ تغیر پزیر ہے ۔ اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے بہت سے معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں ۔ یہ مسائل ترقی پزیر ممالک میں زیادہ ہوتے ہیں ۔ موجودہ دور میں ترقی پزیر ممالک میں جہالت ، غربت ، بے روزگاری ، سمگلنگ ، افراتفری جیسے سماجی اور معاشرتی مسائل پیدا ہو چکے ہیں ۔ معاشرے میں ایسے مسائل ختم ہو جائیں تو معاشرہ ترقی کر سکتا ہے ۔ اب بات اس امر کی ہے کے ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے ان مسائل پر ہماری حکومت کس حد تک قابو پا سکتی ہے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ ہمارے حکومتی ادارے کیا کر رہے ہیں اس کے متعلق اس کا جواب ہمیں شاید کبھی نہیں مل پائے گا بس امید ہے جو شاید کچھ ہی لوگوں میں باقی بچی ہے ۔

پیر، 30 مارچ، 2015

قائداعظم کا تصور تعلیم

قیام  پاکستان کے وقت ہمیں ورثے میں فرسودہ برتانوی نظام تعلیم ملا جو ہماری قومی روایات کے منافی تھا ۔ اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ ایسا نظام تعلیم بنایا جائے جو ہمارے فلسفہ حیات سے مربوط ہو ۔ بانی پاکستان قائداعظم نے صحیح تعلیم تربیت کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے زور دیا کے ایسا نظام تعلیم تشکیل دیا جائے جو ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہو ۔ چنانچہ آپ نے پہلی تعلیمی کانفرنس کے موقع پر اپنے پیغام میں فرمایا ۔

        ہمیں اپنی تعلیمی پالیسی اور منصوبے کو عوام کے تقاضوں اور تمدن  و تاریخ کی روشنی میں تمام جدید تبدیلیوں کو پیش نظر رکھ کر مرتب کرنا ہو گا ۔ ہمارے ملک کا مستقبل اس تعلیم و تربیت پر منحصر ہو گا جو ہم اپنے بچوں کو سچا پاکستانی بنانے کے لئیے دیں گے ۔ تعلیم کا مقصد صرف کتابی تعلیم نہیں بلکہ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہمارے عوام ٹیکنیکل اور سائنسی تعلیم سے بھی مستفید ہوں تا کہ مستقبل میں ہماری اقتصادی زندگی بہتر کی جا سکے اور لوگ سائنس ، تجارت اور خاص طور پر منظم کی ہوئی صنعتوں میں حصہ لے سکیں ۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کے ہمیں دنیا سے مقابلہ کرنا ہے جو بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اس کے ساتھ ہمیں اپنی آئندہ نسل کی کردار سازی بھی کرنی چاہیے ۔ ہمیں چاہیے کہ موزوں تعلیم کے ذریعےان میں عزت نفس ، راست بازی ، ذمہ داری اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدہ کریں اور قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمت و کردار ادا کرنے کے لیے اچھی مہارت اور تربیت ہو تا کہ پاکستان کو عظمت و کامیابی حاصل ہو ۔